عجب معمول ہے آوارگی کا
گریباں جھانکتی ہے ہر گلی کا
نہ جانے کس طرح کیسے خدا نے
بھروسہ کر لیا تھا آدمی کا
ابھی اس وقت ہے جو کچھ ہے ورنہ
کوئی لمحہ نہیں موجودگی کا
مجھے تم سے بچھڑنے کے عوض میں
وسیلہ مل گیا ہے شاعری کا
زمیں ہے رقص میں سورج کی جانب
چھپا کر جسم آدھا تیرگی کا
میں اک ہی سطح پر ٹھہروں گا کیسے
اترتا چڑھتا پانی ہوں ندی کا
میں مٹی گوندھ کر یہ سوچتا ہوں
مجھے فن آ گیا کوزہ گری کا
کھٹک جاؤں گا صوفے کو تمہارے
میں بندہ بیٹھنے والا دری کا
میں اس منظر میں پایا ہی گیا کب
جہاں بھی زاویہ نکلا خوشی کا
سمندر جس کی آنکھوں کا ہو خالی
وہ کیسے خواب دیکھے جل پری کا
نکالو کیل کو دیوار میں سے
وگرنہ ٹانگ لو فوٹو کسی کا