عجب معمول ہے آوارگی کا
Poet: آفتاب شکیل By: سلمان علی, Rawalpindiعجب معمول ہے آوارگی کا
 گریباں جھانکتی ہے ہر گلی کا 
 
 نہ جانے کس طرح کیسے خدا نے 
 بھروسہ کر لیا تھا آدمی کا 
 
 ابھی اس وقت ہے جو کچھ ہے ورنہ 
 کوئی لمحہ نہیں موجودگی کا 
 
 مجھے تم سے بچھڑنے کے عوض میں 
 وسیلہ مل گیا ہے شاعری کا 
 
 زمیں ہے رقص میں سورج کی جانب 
 چھپا کر جسم آدھا تیرگی کا 
 
 میں اک ہی سطح پر ٹھہروں گا کیسے 
 اترتا چڑھتا پانی ہوں ندی کا 
 
 میں مٹی گوندھ کر یہ سوچتا ہوں 
 مجھے فن آ گیا کوزہ گری کا 
 
 کھٹک جاؤں گا صوفے کو تمہارے 
 میں بندہ بیٹھنے والا دری کا 
 
 میں اس منظر میں پایا ہی گیا کب 
 جہاں بھی زاویہ نکلا خوشی کا 
 
 سمندر جس کی آنکھوں کا ہو خالی 
 وہ کیسے خواب دیکھے جل پری کا 
 
 نکالو کیل کو دیوار میں سے 
 وگرنہ ٹانگ لو فوٹو کسی کا
More Sad Poetry







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 