عجب وفاؤں کا صلہ دیا ہے تو نے ظالم
میں عمر بھر اپنے آپ سے بھی نظریں چراتا رہا
تیرے شہر کے لوگ مجھ پہ مسکراتے رہے
میں تیری راہوں میں بھیگی پلکیں بچھاتا رہا
مجھ پہ موسموں کا اثر کیوںکر ہوتا
میں غم کے آنسوؤں میں لہو نہاتا رہا
بہت سے لوگ میری کتاب میں شامل تھے
میں ہر بار کسی اور کا نام مٹاتا رہا
کئی بار لوٹ آنا چاہا واپسی کے سفر پہ
وہ اپنی میٹھی باتوں سے مجھے بہکاتا رہا
انا کی دیواریں ہر موڑ پہ کھڑی کیں اس نے
اور میں اپنے آپ سے بھی مات کھاتا رہا