اور تیرے وصل کے خوابوں کے عذابوں سے پرے
ہم نے دنیا تیری یادوں کی بسا رکھی ہے
اور فطرت نے تیرے چاہنے والوں کے لیئے
بعد مرنے کے بھی چاہت کی سزا رکھی ہے
اب تو آجا اے میری جان کے دشمن مینے
تیری خاطر نفس چند بچا رکھی ہے
تجھ کو چاہا تیرے دیدار سے محروم رہے
خاک در کی تیرے پلکوں پہ سجا رکھی ہے
قاضیئ شہر نے تیرے چاہنے والوں کے لیئے
تیری تصویر بنانے کی سزا رکھی ہے