عرصہ ہوا آتش عشق کو بجھائے بیٹھا ہوں
اب تو اُس بےوفا کا چہرا بھی بھُلائے بیٹھا ہوں
جب دیکھنے لگتا ہوں اُس کی کوئی پرانی تصویر
تُو کہتا ہے دل مرا کیوں زخموں کو بڑھائے بیٹھا ہوں
بسایا تھا جن کو اپنے دل میں اتنی چاہ سے
اسکی یادوں سے رنگین کتابوں کو جلائے بیٹھا ہوں
جاتی نہیں اُس کی خوشبو مرے وجودِ بیقراں سے
پر پھر بھی اُسکو اپنی مرادوں سے مٹائے بیٹھا ہوں
جیتنے ستم ڈھائے ہیں اُس نے سب یاد ہیں مجھے
اب تو صرف رحمت خداوندی کی آس لگائے بیٹھا ہوں
زخموں سے چور بدن کو بستر پہ لٹائے بیٹھا ہوں
طبیب کے انتظار میں سب دوائیں آزمائے بیٹھا ہوں
وہ تو خوش ہے مجھ سے دور ہو کے بھی اپنی زندگی میں
پھر نجانے کیوں میں زخموں کی دوکاں سجائے بیٹھا ہوں
جب پوچھتے ہیں میرے احباب احوال انکا مجھ سے
تو ہوتا ے جواب میرا میں تو ان کو دفنائے بیٹھا ہوں
اے سلمان آزمائش میں صبر سے بہتر کچھ نہیں
آگے بڑھنے کی کوشش میں خود کو تھکائے بیٹھا ہوں