سب کچھ غلط سلط کیا جس دل کے واسطے
رکھتا تھا نرم گوشے وہ قاتل کے واسطے
قدموں کا بس شمار ، نہ رحت سفر فقط
عزم و یقیں بھی چاہئے منزل کے واسطے
انسانیت کا وصف ہے ظالم کی در گزر
نا کرد گی کا عزر بھی بز دل کے واسطے
شائد کی کچھ سکوں ترے دیدار سے ملے
دکھلا دے اک جھلک دل بسمل کے واسطے
مظلوم ٹھہرا آپ ہی واحد گواہ جرم
کیسے ثبوت لائے وہ عادل کے واسطے
طوفاں سے ساز باز تھی ‘ ہم کو پتہ نہ تھا
کیا کیا نہ ہم کیا کئے ساحل کے واسطے
ہم راہ مستقیم سے اتنا بھٹک گئے
ہموار اب زمین ہے با طل کے واسطے
کچھ بھی رہا نہ اب ، تو ‘ حسن ‘ سوچتا ہوں میں
کیوں دل لٹا دیا کسی سنگدل کے واسطے