کیوں لیتے ہو یہ ستم تم اپنے حق میں
عشق مجھے ہے دل سُوز مجھے ہی رہنے دو
گواہ کیوں لائے ہو میری بخشش کے اے سِتم گھر
عشق مجھے ہے دل سُوز مجھے ہی رہنے دو
آج سُولی پہ چڑا ہوں کوئی تیرا قصُور تھوڑی ہے
عشق مجھے ہے دل سُوز مجھے ہی رہنے دو
نفرتیں دَر پیش ہیں مجھے میرے سایےکی طرح
تُمھیں کیا! عشق مجھے ہے دل سُوز مجھے ہی رہنے دو
لگی ہے آگ جو گھر کو ذَد میں شہر بھی آسکتا ہے
خوف تجھے ہے کیوں دل سُوز مجھے ہی رہنے دو
رفتہ رفتہ بناتے جا رہے ہو خود کو تم عادت میری
جَل جاؤ گے نفیس عشق مجھے ہے مجھے ہی رہنے دو