عشق میں جان سے گزُر جائیں
اب یہی جی میں ہے، کہ مر جائیں
یہ ہمیں ہیں، کہ قصرِ یار سے روز
بے خطر آ کے بے خبر جائیں
جامہ زیبی نہ پوچھیے اُن کی !
جو بگڑنے میں بھی سنور جائیں
اُن کو مدّ ِ نظر ہُوا پردا
اہلِ شوق اب کہو کِدھر جائیں
شب وہی شب ہے، دن وہی دن ہیں
جو تِری یاد میں گزُر جائیں
گریۂ شام سے تو کچھ نہ ہُوا
اُن تک اب نالۂ سحر جائیں
دوش تک بھی بلائے جاں ہیں وہ بال
جانے کیا ہو جو، تا کمر جائیں
شعر دراصل، ہیں وہی حسرت !
سُنتے ہی دل میں جو اُتر جائیں