عشق میں نام کر گئے ہوں گے
جو تیرے غم میں مر گئے ہوں گے
اب وہ نظریں اِدھر نہیں اُٹھتیں
ہم نظر سے اُتر گئے ہوں گے
کچھ فضاؤں میں انتشار سا ہے
ان کے گیسُو بکھر گئے ہوں گے
نور بکھرا ہے راہگزاروں میں
وہ ادھر سے گزر گئے ہوں گے
میکدے میں کہ بزمِ جاناں تک
اور جالب کدھر گئے ہوں گے