عشق کی عمر جب اچھال کی تھی
کیوں تمنا تجھے زوال کی تھی
دو ٹکا تھا مرے جواب کا مول
دھوم ہر سو ترے سوال کی تھی
دل جو ٹوٹا تو یاد آیا ہمیں
چیز یہ کتنے دیکھ بھال کی تھی
تھا بڑا ہجر کا ملال مگر
کیا کروں بات ہی ملال کی تھی
اچھے دن وہ بھی اب میاں جاؤ
یہ کہانی تو پچھلے سال کی تھی
ساتھ لے آیا اپنے خاموشی
آرزو جس کو بول چال کی تھی
منزل مرگ پا کے ختم ہوئی
اف کے دشواریاں بھی حال کی تھی
ہم تھے مغرور نوجواں آفیؔ
کچھ اکڑ ان میں بھی جمال کی تھی