عشق کے سمندر کا کوئی کنارا نہیں
کاغذ کی کشتی کو کسی کا سہارا نہیں
اکیلے ہوئے تو خُد سے ہی مسکرانے لگے
پر کیا کرے یے بہی کسی کو گوارا نہیں
مقدر سے رہے شکوے بہت ہمیں
خُد ہیں اپنے اور کوئی بہی ہمارا نہیں
زندگی دیتی رہی ہمیں روز عزیتیں نئی
موت نے یے دیکھ کر بہی ہمکو پکارا نہیں
آسماں پے بہی چمکتے ہیں ستارے اوروں کے لئیے
نعمتؔ اپنی تقدیر کا کو تو کوئی بہی ستارا نہیں