عُہدے اسیری سے رہائی چاہتا ہوں
فراقِ یار سے اب جدائی چاہتا ہوں
مینے تو بس خُدا کو مانگا ہے
کس نے کہا خُدائی چاہتا ہوں
ہُجوم سے وحشت ہے مجھکو
میں تو بس تنہائی چاہتا ہوں
رفتہ رفتہ موت سراھانے جم رہی ہے
اور میں بہی تو ایساہی چاہتا ہوں
روشنی سے اجل ہے مجھکو یاروں
میں صرف اور صرف سیاہی چاہتا ہوں
کتنا عجیب آدمی ہوں میں نعمتؔ
بس اپنی ہی تباہی چاہتا ہوں