یہ کیسی گھڑی میرے ملک پہ آئی ہے یارب
زندگی کے خوف سے لوگ مرنے کی دعا کرتے ھیں
ظالم بھی ہے حق پر مظلوم بھی حق پر
جنت کے ٹکٹ سربازار ملا کرتے ہیں
جو مرےوہ شہید جو مارے وہ غازی
زندگی تو بس گنہگار جیا کرتے ہییں
حصول علم کی سزا موت ہے یہاں پر
دختر ملت کی تربت پر تحریر لکھا کرتے ہیں
اے آگاش وطن یہ منظر بھی تو نے بارہا دیکھا
پانی کے گھروں میں یہاں چراغ جلا کرتے ہیں
اےارض وطن کیا ہوا تیری آغوش کو
بچے تیرے آنگن میں صبیح شام مرا کرتے ہیں
اے شہید وطن تمہارا لہو تھا یا پانی تھا
بہار میں بھی یہاں کاغذ کے پھول سجا کرتےہیں
اے گلشن تیری شجر کاری کا کیا کہنا
تیرے باغبان قبروں سے پھول چناکرتے ہیں
تکرار نہ کرنا فقیہ شہر سے کبھی بھی
استاد اپنے شاگردوں سے التجا کیا کرتے ہیں
اس صحرا کی تنگی کو کب تک ڈھانپیں گے
ساںے شجر سے احتجاج کیا کرتے ہیں
دست و گریباں ہے آسمان اور زمین یہاں
شاگرد استادوں کو ملامت کیا کرتے ہیں
یہ بہار بھی کوںی بہار ہے اس سے تو خزاں اچھی
کانٹے اکثر پھولوں سے گلہ کیا کرتے ہیں
جی جی کے مرنا ہو تو اور بات تھی
لیکن لوگ یہاں مر مر کے جیا کرتے ھیں
ویراں ہے میکدہ آباد ہے ساقی یہاں
ٹوٹے ہوںے جام بھی بیش قیمت ہوا کرتے ہیں
اوج انسان کی تعبیر ہے یہ یہاں
مٹی کے لوگ مٹی میں ملا کرتے ہیں