غارت گر ديں ہے يہ زمانہ
ہے اس کی نہاد کافرانہ
دربار شہنشہی سے خوشتر
مردان خدا کا آستانہ
ليکن يہ دور ساحری ہے
انداز ہيں سب کے جادوانہ
سرچشمہ زندگی ہوا خشک
باقی ہے کہاں مے شبانہ
خالی ان سے ہوا دبستاں
تھی جن کی نگاہ تازيانہ
جس گھر کا مگر چراغ ہے تو
ہے اس کا مذاق عارفانہ
جوہر ميں ہو 'لاالہ' تو کيا خوف
تعليم ہو گو فرنگيانہ
شاخ گل پر چہک وليکن
کر اپنی خودی ميں آشيانہ!
وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا
ہر قطرہ ہے بحر بيکرانہ
دہقان اگر نہ ہو تن آساں
ہر دانہ ہے صد ہزار دانہ
''غافل منشيں نہ وقت بازي ست
وقت ہنر است و کارسازي ست''