یوں غبار دل کا نکالا گیا
شعر میں خواہشوں کو ڈھالا گیا
مومنو! پھر سے اٹھ رہا ہے دھواں
اب کے بٹھی میں کس کو ڈالا گیا؟
روٹی دو وقت کی ہے خواب و خیال
ایک وقت کا بھی گر نوالہ گیا
جو نئی بات تھی، پرانی تھی
ہر نئی بات کو اچھالا گیا
اس زمیں نے ہمیں پناہ بخشی
ہم سے اس کو نہیں سنبھالا گیا