میں نے ہجر کی کالی راتوں میں اک تیری آس لگائی ہے
میرا روم روم ہے چھلنی سا میری زات میں بس تنہائی ہے
تم سمجھو نہ میری مشکل کو کیوں اتنی مایوسی ہے
تیرے ساتھ کی منزل دور بہت اور قدم قدم رسوائی ہے
یہاں نوچنے کو بیتاب ہے دنیا جو بھی مجھ میں ہے باقی
تیرا عشق ہے میری ذات مگر میری زات تیری پرچھائی ہے
کبھی خواب میسر تھے مجھ کو کبھی نیند کے جھونکے آتے تھے
اب اشک اشک زد ماتم ہے اور سانس سانس میں دہائی ہے
مجھے زخم تمنا کیا دو گے مجھے درد محبت کیا دو گے
نہیں خود سے بھی کوئ ربط رہا ہوئ تجھ سے جو شناسائی ہے