اپنی الگ ہی سمت میں راہیں نکال کر
وہ لے گیا جسم سے سانسیں نکال کر
لوٹے تو یہ نہ سوچے کہ خط جھوٹ موٹ تھے
میں رکھ چلا ہوں بام پر آنکھیں نکال کر
میرے کفن کے بند نہ باندھو! ابھی مجھے
ملنا ہے ایک شخص سے بانہیں نکال کر
کیا ظرف ہے درخت کا، حیرت کی بات ہے
ملتا ہے پھر خزاں سے جو شاخیں نکال کر
تو ہی بتا کہ آنکھ کے شمشان گھاٹ میں
کیسے بسا لوں میں تجھے لاشیں نکال کر
ہر شخص اپنے قد کے برابر دکھائی دے
سوچیں جو درمیان سے ذاتیں نکال کر
چاہو تو کر لو شوق سے تم بھی حساب وصل
اک پل بچے گا ہجر کی راتیں نکال کر