غم وہ ملا کہ درد کا سامان ہوگیا
میرے لئے تو زیست کا عنوان ہوگیا
نکلا جو تھا وہ ہم کو ڈبونے کے شوق میں
وہ ناخدا بھی غرقہِ طوفان ہوگیا
وہ بھی دن تھے کہ بار ندامت سےچوۡر تھا
تیرا کرم ہوا ہے کہ ذیشان ہو گیا
سج دھج کے جب بھی آیا میرا یار سامنے
ہر شخص چاک چاک گریبان ہوگیا
ہر اک غزل پہ اس کی محبت کی چھاپ ہے
مشہور وہ میں صاحبِ دیوان ہوگیا
جب دادؔ دفتاً وہ ملا ساتھ غیر کے
میں غمزدہ ہوا وہ پشمان ہوگیا