غضب کی دھوپ تھی تنہایوں کے آشیانے میں زندگی بسر کی ہم نے جس وحیرانے میں خوش ہم بھی تھے کبھی کسی زمانے میں پر سب کچھ لُٹا دیا ہم نے درد ء دل لگانے میں وہ آج آئے ہیں ہمارا پتا پوچھتے ہوئے فہیم ہم نے صدیاں گزار دیں جن کو بھُلانے میں