غضب کے ظلم ڈھائے جا رہے ہیں
وہ طنزاً مسکرائے جا رہے ہیں
جنہیں نفرت سے ٹھکرایا تھا ہم نے
وہی رشتے نبھائے جا رہے ہیں
ہماری داستانِ زندگی میں
نئے کردار لائے جا رہے ہیں
ہمیں مطلب ہے صرف اپنی فنا سے
سو اپنے دن گنوائے جا رہے ہیں
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا تو
بہانے کیوں بنائے جا رہے ہیں
شکستِ عشق کو تسلیم کر کے
محل خوابوں کے ڈھائے جا رہے ہیں
خرابوں میں بھٹکنے کے لیے اب
ترے رستے مٹائے جا رہے ہیں
خدا ہو یا کہ آدم یا پھر ابلیس
سبھی دل سے بھلائے جا رہے ہیں
زمیں میں ہر طرف بسنا ہے ہم کو
تبھی در در پھرائے جا رہے ہیں
نہ جانے کیا ہے ہو اور کس کا ہے وہ
جسے پل پل گنوائے جا رہے ہیں
یہ ہجر و وصل کے وحشی درندے
مجھے دن رات کھائے جا رہے ہیں
بتاؤ کیا رکھا ہے آسماں میں
جو امیدیں ہی لگائے جا رہے ہیں