غلط کہا ہے کسی نے ہوا منافق ہے
ہمارے شہر کا ہر اک دیا منافق ہے
جسے سمجھتا رہا میں خلوص کا پیکر
وہ کائنات کا سب سے بڑا منافق ہے
تجھے سمجھنا مری دسترس سے باہر ہے
تو اپنی طرز کا بالکل نیا منافق ہے
میں اس لیے تو پلٹ کر کبھی نہیں آیا
مجھے خبر تھی کہ تیری صدا منافق ہے
تمھارے دوست سے پوچھا تمھارے بارے میں
بس ایک لفظ ہی اس نے کہا،منافق ہے
دلوں سے نکلی دعائیں قبول ہوتی ہیں
فقط زبان سے نکلی دعا منافق ہے
نوید میں نے اسے ہر طرح سے پرکھا ہے
وہ ہر حوالے سے بے انتہا منافق ہے