غموں سے جڑے سلسلے کچھ ایسے ہیں
جدائی کے بس اپنے ہی کچھ ذائقے ہیں
یادوں کے اوراق پر جو لکھے ہیں حروف
درمیاں ان کے حائل فاصلے کچھ ایسے ہیں
جہاں رکے وہاں راستہ ہے نہ کوئی منزل
پتھر ہو گئے ہم آگے مر حلے کچھ ایسے ہیں
ہر طرف شور پرپا ہے اپنی بربادیوں کا
ملے مسائل زندگی میں کچھ ایسے ہیں
نہیں ملتا جب کوئی چلا جاتا ہے بچھڑ کر
رابطے ہمارے بس کمزور کچھ ایسے ہیں