آج پھربرسات آئی ہے
دن میں رات لائی ہے
ایسے سہانے موسم میں بھی
غموں کی بدلی چھائی ہے
زخم پرانے ہرے ہو رہے ہیں
دل کی ہر کلی مرجھائی ہے
کیسی ہے تیری یہ رحمت یارب
ہر چہرے پہ مایوسی چھائی ہے
جو نہیں پوری ہونی، وہ آس
کیوں کسی کے من میں جگائی ہے
میری ہی یہ بات نہیں ہے
ہر دل دے رہا دوہائی ہے
جتنے چاہو لے لو میرے امتحان
میں نے بھی کامیابی کی قسم کھائی ہے
چھین نہیں سکتا کوئی شاہد کا مقدر
تو نے ہی تو ڈھارس بندھائی ہے