غم بھی وہیں په رہ گیا، ہم بھی وہیں پہ رہ گئے
دامنِ چشم سے مگر آنسو تمام بہہ گئے
اس نے بھی کچھ نہیں کہا، ہم نے بھی کچھ نہیں کہا
وہ بھی غموں کو سہہ گیا، ہم بھی غموں کو سہہ گئے
...
چاروں طرف جہان میں، جس پہ سزائے ہجر تھی
وہ بھی وہ بات کہہ گیا، ہم بھی وہ بات کہہ گئے
ہر کوئی کر کے آنکھ نم، مجھ کو سُنا رہا ہے غم
لگتا ہے سب جہاں کے غم ، میرے لیے ہی رہ گئے
ہم سے بتا جہانِ غم ، کیا تجھے اور چاہیئے
سننا بھی جو محال تھے، ہم تو وہ غم بھی سہہ گئے
کہنے لگے کہ دوستی، صرف نہیں ہے زندگی
لوگ عجیب تو نہ تھے، بات عجیب کہہ گئے