رہتا ہے میرے دل میں یہ گماں اکثر
زندگی روز نئے لیتی ہے امتحاں اکثر
کِس محبت سے تنکا تنکا جمع کر کے
خود ہی جلا لیتے ہیں لوگ آشیاں اکثر
جب رشتوں کی اساس ہو غرض وطمع
تو لوٹ لیتے ہیں گھر کے ہی نگہباں اکثر
وہی ظُلمات کی آغوش میں رکھ دیتے ہیں
جن کے لیے کرتے ہیں لوگ چراغاں اکثر
اپنے ہی پرایا کر دیں سرَ راہ، تو پھر
زمیں ہوتی ہے، نہ دسترس میں آسماں اکثر
اک ہم کہ افسردہ ہیں کسی کے روٹھ جانے پہ
لوگ تو مروت میں بھی نہیں مناتے یہاں اکثر
کیا پوچھتے ہو رضا کہ حا صل ِ وفا کیا ہے
غم خریدتے ہیں بانٹ کے خوشیاں اکثر