غم رکھا ہجر آسماں رکھا ہے
نام دل کا بھی کہاں رکھا ہے
پوچھ لینا تمہیں گواہی دے گا
زباں دی ہے جگر زباں رکھا ہے
خود کا پہلو نہیں ملا پھر سے
جانے وہ کس جگہ کہاں رکھا ہے
کس جگہ پر تلاش کر رہے ہو
عکس سایہ وہ خوں یہاں رکھا ہے
مہماں ہوں میں کسی کی آبرو ہوں
خود کو گھر والا میزباں رکھا ہے
انھی کے نکلے جاں نثار سبھی
کتنا بے نام کارواں رکھا ہے
چیز نازک نہ آزمانا اریش
ہم غریبوں نے یاں مکاں رکھا ہے