جلا اس طرح کہ زمانے میں نام تک نہ رہا
مٹا خاک میں یوں کہ زمانے میں نام تک نہ رہا
کتنی حسرت لئے گے تھے درِ یار پر علی
کم ظرف کی نگاہ موڑ گئی جیسے اجنبی پرائے تھے ہم
ایک مقطع ہے
آنکھوں میں دیدِ حسرت باہوں میں سمیٹنے کی لگن
اسی تمنا کو لئے علی ہو جائیں نہ دن زندگی کے کم
قسمت بدلی تقدیر ستم سے گلہ نہ کر سکا
اہل دل ہو خدا راہ یوں نہ ستایا کرو