پھر ساحلوں کی دھوپ میں کنارے بھٹک گئے
دکھ کی صلیب پہ وہ غم کے مارے بھٹک گئے
صحراؤں میں بگولا بن کے رہا اسکی تلاش میں
جو راستہ دکھاتے تھے وہ ستارے بھٹک گئے
رقیبوں سے کیا گلہ کریں اپنے بھی ھوئے جدا
قسمیں جو کھا رھے تھے وہ پیارے بھٹک گئے
ھم کو امید تھی کہ وہ بہاروں کو لائیں گے
جن پہ تھے تکیہ کرتے وہ سہارے بھٹک گئے
دنیا میں سر پھروں کی نہیں اب بھی کوئی کمی
جو معصوم تھے وہ عاشق بے چارے بھٹک گئے