اس غم کو تو اب دل میں سمونا ہی پڑے گا
آنکھیں جو بھر آئیں ہیں تو رونا ہی پڑے گا
وہ شخص مرادوں سے جسے پایا تھا ہم نے
محسوس یہ ہوتا ہے کہ کھونا ہی پڑے گا
اب جی کو جلاتے ہوئے اک عمر ہوئی ہے
اب ہم کو تیری طرح کا ہونا ہی پڑے گا
یہ ہجر کا موسم کہیں بےکار نہ ہو جائے
باقی جو بچا ہے اسے کھونا ہی پڑے گا
اس کشت ملامت میں مری جان زرا دیکھ
یہ تخمِ محبت ہے کہ بونا ہی پڑے گا