فریب دیتی ھوئی مہربانیوں سے مجھے
کسی نے کھینچ لیا خوش گمانیوں سے مجھے
کُھلا کہ میں ابھی ازبر نہیں ھوا اُس کو
وہ یاد رکھتا ھے میری نشانیوں سے مجھے
میں اپنے آپ کو شک کی نظر سے دیکھتا ھون
وہ دکھ ملے ھیں تری بد گمانیوں سے مجھے
میں جانتا ھوں کسی روز بیچنے کے لئے
بچا رھا ھے کوئی رائیگانیوں سے مجھے
مرے خُدا مرے ماتھے پہ جاوداں لکھ کر
کیا ھے کس لئے منسوب فانیوں سے مجھے
میں اک خزانہ ھوں پہچان کو ترستا ھوا
نکالتا ھی نہیں کوئی پانیوں سے مجھے
کچھ اس لئے بھی مری نیند اُڑ گئی شاھد
سُلا رھا تھا وہ سچی کہانیوں سے مجھے