فصلِ خزاں میں سیر جو کی ہم نے جائے گُل
چھانی چمن کی خاک، نہ تھا نقشِ پائے گُل
اللہ رے عندلیب کی آوازِ دل خراش
جی ہی نکل گیا، جو کہا اُن نے ہائے گُل
مقدور تک شراب سے رکھ انکھڑیوں میں رنگ
یہ چشمکِ پیالہ ہے ساقی ہوئے گل
بلبل ہزار جی سے خریدار اس کی ہے
اے گُل فروش کریو سمجھ کر بہائے گل
نکلا ہے ایسی خاک سے کس سادہ رُو کی یہ
قابل درود بھیجنے کے ہے صفائے گل
بارے سر شکِ سرخ کے داغوں سے رات کو
بستر پراپنے سوتے تھے ہم بھی بچھائے گُل
آ عندلیب صلح کریں جنگ ہو چکی
لے اے زبان دراز تو سب کچھ ہوائے گُل
گُل چیں سمجھ کے چنُیو کہ گلشن میں میر کے
لختِ جگر پڑے ہیں،نہیں برگ ہائےگُل