فصلِ مہر و محبت کو زر کھا گئی
زندگی کو کسی کی نظر کھا گئی
مجھ پہ افلاس کی تیرگی مستقل
میرے بچوں کا روشن سحر کھا گئی
میرا گھر ہی نہیں مفلسی کا شکار
اور بھی ایسے کتنے ہی گھر کھا گئی
دل کے ہاتھوں محبت میں اس نے فریب
لاکھ چاہا نہ کھائے مگر کھا گئی
زندگی کا رہے کیسے پھر اعتبار
زندگی زندگی کو اگر کھاگئی