فصیلِ شہرِ مقدر میں در بناتے ہوئے
بکھر گیا میں تیرے دل میں گھر بناتے ہوئے
تجھے خبر ہی نھیں شاخ کاٹنے والے
زمیں پہ گزری ہے کیا کیا شجر بناتے ہوئے
میں جانتا ہوں مجھے پھر سے ٹوٹ جانا ہے
خود اپنے آپ کو بارِ دگر بناتے ہوئے
مجھے فقط میری منزل سے اتنی نسبت ہے
میں رزقِ خاک ہوا رہگزر بناتے ہوئے
میری طرح کوئی جاگے گا رات دن جعفر
اسے خبر تھی یہ شمس و قمر بناتے ہوئے