فضاؤں سے گزرتا جا رہا ہوں
خلاؤں میں بکھرتا جا رہا ہوں
میں ریگستان میں بیٹھا ہوں لیکن
سمندر میں اترتا جا رہا ہوں
زمانہ لمحہ لمحہ جی رہا ہے
میں لمحہ لمحہ مرتا جا رہا ہوں
وہ جتنے دور ہوتے جا رہے ہیں
میں اتنا ہی سنورتا جا رہا ہوں
چلا ہوں اپنے سے دو ہات کرنے
مگر خود سے بھی ڈرتا جا رہا ہوں
میں نقطہ بن کے اک مرکز پہ یارو
نہ جانے کیوں ٹھہرتا جا رہا ہوں
مٹانے پر بھی میں اردو کی مانند
سنورتا اور نکھرتا جا رہا ہوں
میں کالی جھیل میں ڈوبا تھا خود ہی
مگر خود ہی ابھرتا جا رہا ہوں
میں قیصرؔ اپنی آنکھوں سے ٹپک کر
کسی دل میں اترتا جا رہا ہوں