فلسفہ اور سہی، اپنا چلن اور ہی ہے
دلِ خوش فہم سہی میرا چلن اور ہی ہے
حال مفلوک زدہ ہے تو سکوں بھی غارت
میری ترکیب میں تسکینِ ذہن اور ہی ہے
چپ رہوں تو مجھے پابندِ غلامی ہیں کریں
زعم نہ کر کے میرے پاس دہن اور ہی ہے
مرقدِ عشق بنا، مر گئے عاشق سارے
نوکِ خنجر کے تلے میرا سخن اور ہی ہے
احسنِ تشنہ دہن چھوڑ بھی دے اب تو قلم
پیاس تیری ہے الگ، تیری جلن اور ہی ہے