فلک پہ روز کتنے ہی ستارے ڈوب جاتے ہیں
اس دنیا کے ریلے میں سارے ڈوب جاتے ہیں
کوئی خواہش ہے میری باقی نہ کوئی ارمان دل میں ہے
جب آنکھیں بند ہو جائیں سب سہارے ڈوب جاتے ہیں
تمہیں دیکھیں یہ ہمت اپنی پیدا ہو نہیں سکتی
جب لہریں آکر چھوتی ہیں تو کنارے ڈوب جاتے ہیں
تمہیں دیکھا جونہی سب شکایتیں دم توڑ گئیں
محبت میں گلے شکوے سارے ڈوب جاتے ہیں
کبھی وصال کے آنسو کبھی تنہائی میں گریہ
خوشی اور غم کے موسم تو سارے ڈوب جاتے ہیں
کسی جنت سے یہ منظر ذرا بھی کم نہیں ہوتا
تمہاری آنکھوں میں جب نین ہمارے ڈوب جاتے ہیں
یہی ہم سوچ کر اکثر اشتیاق ان سے ہار جاتے ہیں
محبت میں دونوں ہی جیتے ہارے ڈوب جاتے ہیں