قافلے سے بھروسا اُٹھانا پڑا
اپنا رستا مجھے خود بنانا پڑا
انگلیاں تھام کر چلنے کی عمر تھی
جب مجھے بوجھ اپنا اُٹھانا پڑا
آج پھر پاس اپنے کرایہ نہ تھا
مَدرِسے پاپیادہ ہی جانا پڑا
دوستوں نے تو پھر بھی توقف کِیا
قرض بھائی کا پہلے چکانا پڑا
آبِ رحمت نے شب جو چُھوا کھاٹ کو
گھر پڑوسی کے بستر لگانا پڑا
مجھ کو احساسِ فاقہ کشی تب ہوا
در سے جب سگ کو مایوس جانا پڑا
طفل جب بلبلایا کڑی بُھوک سے
بیچ کر خون بھی دودھ لانا پڑا
اُن سے میراث پوچھو نہ اے دوستو
بوجھ قرضوں کا جن کو اُٹھانا پڑا
سب ہی نکلے جو دیپک نمک پاش تو
خود ہی زخموں پہ مرہم لگانا پڑا