قصور آپ کا، شکوہ بھی آپ ہی سے مجھے
نہی ہے کوئی سروکار عاشقی سے مجھے
بجھا ہے وقت ضرورت، ہوا چلی بھی نہیں
کیا چراغ نے محروم روشنی سے مجھے
بُرا نہیں ہے کہا اور سُنا سمجھتا ہوں
خدا بچائے مگر بات ان کہی سے مجھے
ابھی ابھی تو ڈسا علم نے مرے مجھکو
ابھی تو خوف سا آتا ہے آگہی سے مجھے
اسیر سب ہیں مرے ساتھ ساتھ زنداں میں
بچائے کون اب اُس زلف شبنمی سے مجھے
گوارا تُم سے اگر ساتھ ہو نہیں سکتا
بس آ کے کان میں کہنا یہ خامشی سے مجھے
اُسے یہ ڈر تھا کہ آگے نکل نہ جاوں کہیں
تو اُس نے روک دیا اپنی پیروی سے مجھے
جہاں گزار کے بچپن ہوا بڑا اظہر
ہے ایک اُنس وہاں کی گلی گلی سے مجھے