قلم نے دل دکھا کے رکھ دیا ہے
لہو کاغذ پہ لا کر رکھا دیا ہے
ضرورت سے زیادہ حسرتوں نے
ہمیں پاگل بنا کے رکھ دیا ہے
پرندے ہجرتیں کرنے لگے ہیں
ہوا میں کیا ملا کے رکھا دیا ہے
تمہارے اک مقدس فیصلے نے
ہمارا سر جھکا کر رکھ دیا ہے
کسی تعمیر نو کی جستجو میں
کھنڈر کو گھر بنا کے رکھ دیا ہے
غلط اقدام صف طندی نے ہم کو
عجب الجھن میں لا کے رکھ دیا ہے
کسی نے ریت کے سینے میں خادم
دل مضطر چھپا کہ رکھ دیا ہے