Add Poetry

قند کہنہ

Poet: امانت By: maqsood hasni, kasur

روح کو راہ عدم میں میرا تن یاد آیا
دشت غربت میں مسافر کو وطن یاد آیا

چہچہے بھول گئے رنج و مہن یاد آیا
روح دیا میں نے قفس میں جو چمن یاد آیا

آ گیا میرے جنازے پر جو وہ ہوش ربا
کر چکے دفن تو یاروں کو کفن یاد آیا

میں وہ ہوں بلبل مستانہ جو مرجہاون نہال
بہول کر کنج قفس ۔۔۔۔۔۔۔چمن یاد آیا

آتش عشق کا پا کر میری رگ رگ میں اثر
آپ ہمراہ لئے نشتر فصاد آیا

سخت جانی سے میری پھیر دیا منہہ دم میں
دل کڑا کرکے اگر خنجر فولاد آیا

ہوں وہ بلبل کے خریدار نے منہہ پھیر لیا
دام مجھ پر لگانے کو کوئی صیاد آیا

برچھیاں ہیں مجہے سورج کی کرن
سنہکیاے کے یہ چرخ ستم ایجاد آیا

دل ہوا سرو گلستانی کے نظارے سے نہال
شجر قامت دلدار مجھے یاد آیا

ہو گئی قطع اسیری میں امید پرواز
اڑ گئی ہوش جو پر کاٹنے صیاد آیا

ہار کا کھیل ہوا لٹر گئے عاشق کے نصیب
غیر بولا جو فراموش تو میں یاد آیا

بلبل زار سمجھ کر یہ رعایت سوجھی
میرے پر باندھنے صیاد آیا

اس درد دل فرموش کیا عاشق کو
نہ کبھی آپ کو بہولے سے بھی میں یاد آیا

مرغ بسمل کیطرح باغ میں تڑپی بلبل
گل لگا کر کہا قمری نے میرا صیاد آیا

در جاناں کا باندھے ھے چمن دہر میں رنگ
پہلیوں کیلئے کوئی باغ میں شمشاد آیا

غسل صحت کی خبر سن کے ہوا خشک لہو
خون میں نہلانے کو فورا مجھے جلاد آیا

ہچکیاں آثی ہیں کیوں عالم غربت میں دلا
کیا عزیزوں کو میں آوارہ وطن یاد آیا

رخ جاناں پہ نظر کرکے بندہا گل کا خیال
قد کو دیکہا تو مجھے سرو چمن یاد آیا

بےنشانی سے نشاں بہول گیا آنے کو
کھینچ چکا ہار نقشہ تو وہی یاد آیا

تذکرہ چشمہءکوثر کا جو زاہد نے کیا
آپنے یوسف کا مجھے چاہ زقند یاد آیا

خم کے ٹکڑے کئے شیشوں کو کیا میں نے چور
توڑے پیمانے جو وہ عہد شکنی یاد آیا

طفل اشک آنکہوں میں بھرنے لگے مردم کیطرح
خورد سالون کو بزرگوں کا چلن یاد آیا

تیرے منہہ پر جو رکہا غیر سیاہ فام نے منہہ
مجہکو رشک قمرچاند گہی یاد آیا

کیوں تیرا عاشق برکشتہ مقدر کیطرح
ستم تو نے کئے تو چرخ کہن یاد آیا

چٹکیاں دل میں میرے لینے لگا ناخن عشق
گلبدن دیکہکے اس گل کا بدن یاد آیا

وہم ہی وہم میں اپنے ہوئے اوقات بسر
کمر یار کو بہولے تو دہن یاد آیا

برگ گل دیکہکے آنکہوں میں تیرے پھر گئے آب
غنچہ چٹکا تو مجہے تکلف سخن یاد آیا

در بدر پھر کے دلا گھر کی ہمیں قدر ہوئی
راہ غربت میں جو بہولے تو وطن یاد آیا

چلو درگاہ میں ہنگامہ ہے دیوانوں کا
بڑی منت کی بڑھانے کو پری زاد آیا

ہو گیا حسرت پرواز میں دل سو ٹکڑے
ہم نے دیکہا جو قفس تو فلک یاد آیا

بے اعتباروں سے نہیں اہل وفا کو کچہ کام
پلبلوں کے لئے پالی میں نہ صیاد آیا

رکہا جنت میں امانت جو قدم حیدر نے
دوڑے جبرائیل یہ کہہ کر میرا استاد آیا

احباب سے گزارش ہے کہ اس کلام پر فکری اور لسانیاتی حوالہ سے' گفتگو فرمائیں۔ باور رہنا چاہیے کہ یہ کلام' تقریبا ایک سو پچاس یا اس کچھ زیادہ سال پرانا ہے۔

Rate it:
Views: 748
19 Oct, 2015
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری
ترے قصہ کے پیچھے پیچھے ہوگی داستاں میری
کریں گی دیکھیے الفت میں کیا رسوائیاں میری
جہاں سنئے بس ان کا تذکرہ اور داستاں میری
قیامت میں بھی جھوٹی ہوگی ثابت داستاں میری
کہے گا اک جہاں ان کی وہاں یا مہرباں میری
بہت کچھ قوت گفتار ہے اے مہرباں میری
مگر ہاں سامنے ان کے نہیں کھلتی زباں میری
قیامت کا تو دن ہے ایک اور قصہ ہے طولانی
بھلا دن بھر میں کیوں کر ختم ہوگی داستاں میری
وہ رسوائے محبت ہوں رہوں گا یاد مدت تک
کہانی کی طرح ہر گھر میں ہوگی داستاں میری
سناؤں اس گل خوبی کو کیوں میں قلب کی حالت
بھلا نازک دماغی سننے دے گی داستاں میری
کہوں کچھ تو شکایت ہے رہوں چپ تو مصیبت ہے
بیاں کیوں کر کروں کچھ گو مگو ہے داستاں میری
اکیلا منزل ملک عدم میں زیر مرقد ہوں
وہ یوسف ہوں نہیں کچھ چاہ کرتا کارواں میری
یہ دل میں ہے جو کچھ کہنا ہے دامن تھام کر کہہ دوں
وہ میرے ہاتھ پکڑیں گے کہ پکڑیں گے زباں میری
پھنسایا دام میں صیاد مجھ کو خوش بیانی نے
عبث پر تو نے کترے قطع کرنی تھی زباں میری
نہ چھوٹا سلسلہ وحشت کا جب تک جاں رہی تن میں
وہ مجنوں ہوں کہ تختے پر ہی اتریں بیڑیاں میری
مشبک میں بھی تیر آہ سے سینے کو کر دوں گا
لحد جب تک بنائے گا زمیں پر آسماں میری
محبت بت کدہ کی دل میں ہے اور قصد کعبہ کا
اب آگے دیکھیے تقدیر لے جائے جہاں میری
بھلا واں کون پوچھے گا مجھے کچھ خیر ہے زاہد
میں ہوں کس میں کہ پرسش ہوگی روز امتحاں میری
تصدق آپ کے انصاف کے میں تو نہ مانوں گا
کہ بوسے غیر کے حصے کے ہوں اور گالیاں میری
مصنف خوب کرتا ہے بیاں تصنیف کو اپنی
کسی دن وہ سنیں میری زباں سے داستاں میری
فشار قبر نے پہلو دبائے خوب ہی میرے
نیا مہماں تھا خاطر کیوں نہ کرتا میزباں میری
قفس میں پھڑپھڑانے پر تو پر صیاد نے کترے
جو منہ سے بولتا کچھ کاٹ ہی لیتا زباں میری
وہ اس صورت سے بعد مرگ بھی مجھ کو جلاتی ہیں
دکھا دی شمع کو تصویر ہاتھ آئی جہاں میری
ہر اک جلسے میں اب تو حضرت واعظ یہ کہتے ہیں
اگر ہو بند مے خانہ تو چل جائے دکاں میری
طریقہ ہے یہی کیا اے لحد مہماں کی خاطر کا
میں خود بے دم ہوں تڑواتی ہے ناحق ہڈیاں میری
پسند آیا نہیں یہ روز کا جھگڑا رقیبوں کا
میں دل سے باز آیا جان چھوڑو مہرباں میری
ہزاروں ہجر میں جور و ستم تیرے اٹھائے ہیں
جو ہمت ہو سنبھال اک آہ تو بھی آسماں میری
یہ کچھ اپنی زباں میں کہتی ہیں جب پاؤں گھستا ہوں
خدا کی شان مجھ سے بولتی ہیں بیڑیاں میری
بنایا عشق نے یوسف کو گرد کارواں آخر
کہ پیچھے دل گیا پہلے گئی تاب و تواں میری
پڑھی اے بزمؔ جب میں نے غزل کٹ کٹ گئے حاسد
رہی ہر معرکہ میں تیز شمشیر زباں میری
 
ناصر
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets