قیامت تھی یا قیامت سے اک لبریز گھڑی
یہ سب روداد اک ماں سے پوچھنا چاہتا ہوں
بچوں کو لے کر ہوتے ہیں ماں باپ کے کئی خواب
میں اس ماں کا خواب، اک ماں سے پوچھنا چاہتا ہوں
گھر سے جاتے ہوئے تو کرتے ہیں ۔سبھی الوداع
میں وہ الوداع، اک ماں سے پوچھنا چاہتا ہوں
ڈرتی تھی جس کو ماں ٹھنڈے پانی سے نہلاتے ہوئے
اس کا خون میں نہانا ،اک ماں سے پوچھنا چاہتا ہوں
آیا تھا جو دشمن وطن کا نام مٹانے کے واسطے
اک دلیر کی دلیری ، اک ماں کو بتانا چاہتا ہوں
دے کر کندھا، اپنے ہی سہارے کی لاش کو
اک باپ کی ہمت، دشمن کو بتانا کو چاہتا ہوں
برپا کرنا چاہتا تھا،دشمن جو دہشت ہمارے بچوں پر
ہر بچے کی آواز بن کر ، دشمن کو للکارنا چاہتا ہوں