فضا میں اڑنے لگے پھر سے طائروں کے گروہ
کسی نے پھر سے جلا دالا آشیانوں کو
یہ ہجرتوں کا سفر جانے اب کہاں ٹھہرے
پہنچ سکیں گے نہ شاید نئے ٹھکانوں کو
کٹھن ہے وقت بہت آج آڑنے والوں پر
کچھ ان کی فکر بھی ہے اور فکر دانہ بھی
کہ چھوڑ آئے ہیں کم سن جگر کے گوشوں کو
نہ اڑنا سیکھا ، نہ سیکھا جنھوں نےکھانا بھی
بقا کا عزم لیے موت کے مسافر یہ
خلا سے لڑتے ہیں کب تک نہیںخبر ان کو
بنا بھی لیں کسی گلشن میں آشیاں اپنا
صیاد رہنے نہ دے گا رہے گا ڈر ان کو
یہ ایک پنچھی جو پنجرے میں قید ہے میرے
اسے نہ تیر کا ڈر ہے نہ فکر کھانے کی
فقط تڑپ ہے کہ آزاد ہو کے اڑ جاؤں
خبر نہیں اسے صیاد کے نشانے کی
قفس میں چین نہیں اڑنا اس کی بربادی
نہ راس قید اسے اور نہ ہی آزادی