ہر ستم کے بعد صدا اُبھرتی ہے بعد ظُلمت نئ صبح بھی نکلتی ہے صداِ احتساب پر پھر احتجاج کبوں ؟ روزَن سے بھی روشنی کی رمق نکلتی ہے حق آواز دباۓ دبتی نہیں صدا تو گونجتی ہے بعد ڈوبنے کے تو لاش بھی اُ بھرتی ہے