آلام حیات، لوٹ آئیں
آسائشیں مجھ کو کھا نہ جائیں
کیا ایسی تلاش آب و دانہ
پرواز کا لطف بھول جائیں
تو مقتلِ شب سے آ رہی ہے
اے صبح! تجھے گلے لگائیں
آسان سہی بِچھڑ کے رہنا
پر اُس کا سا دل کہاں سے لائیں
جب ہم کسی اور کا ہُوئے رزق
کِس کے لیے زندگی کمائیں
معلوم، کہ چھوڑنا ہے اِک دن
پھر بھی یہ لگن کہ گھر بنائیں
بستی میں اُتر رہا ہے پانی
ہم اور کہاں اُتر کے جائیں
پانی ہے، ہوا ہے، خلا ہے
ہم اپنے قدم کہاں جمائیں