زخم رستا ہوا پایا دکھوں کو لا دوا پایا
جو تم نے غم ہمیں بخشے مداوا اُن کا نہ پایا
لگاتے ہو نیا چرکا ہمیشہ جب بلاتے ہو
عجب غمخوار ہو تم سا کوئی غمخوار نہ پایا
جو دیتے ہو ہمیں ہر بار غم پھر بھول جاتے ہو
نہیں لیتے کبھی پھر نام بہت خُدار ہے پایا
غموں کی بھول بھلیوں میں کیا ہے گم مجھے ایسا
بہت ڈھونڈا نہیں ملتا سُراغ اپنا نہیں پایا
بنا کے دُھول گلیوں کی ہمیں تو رکھ دیا تم نے
کہ اُڑتا خاک کو ہم نے ہے اپنی جا بجا پایا
بہت ہوتے ہیں جب وہ مہرباں مجھ کو رُلاتے ہیں
کہ بہتے آنسووں میں ڈوبتا اپنے کو ہے پایا
رہی حسرت کہ میرے درد کو محسوس وہ کرتے
وہ کرتے بھی تو کیونکر بے حسوں سا دل ہے جو پایا
تھی بے بسی کی انتہا تھے سب تماشا دیکھتے
اُس بے بسی میں اپنے کو مرتے ہئے پایا