لبوں میں نرم تبسّم رچا کے گھُل جائیں
خدا کرے میرے آنسو کسی کے کام آئیں
جو ابتدائے سفر میں دیے بُجھا بیٹھیں
وہ بد نصیب کسی کا سراغ کیا پائیں
تلاشِ حُسن کہاں لے چلی، خدا جانے
امنگ تھی کہ فقط زندگی کو اپنائیں
تمام میکدہ سنسان مئے گسار اُداس
لبوں کو کھول کے کچھ سوچتی ہیں مینائیں
بلا رہے ہیں اُفق پر وہ زرد روُ ٹیلے
کہو تو ہم بھی فسانوں کے راز ہو جائیں
نہ کر خدا کے لیے بار بار ذکرِ بہشت
ہم آسماں کا مکرّر فریب کیوں کھائیں
نہیں نہیں، تیرے عرفان کا سوال نہیں
جو اذن ہو تو حدِ آگہی سے بڑھ جائیں
ندیمؔ کو بھی تو مڈبھیڑ کی اُمید نہ تھی
اس اتفاق پہ آپ اس قدر نہ شرمائیں