جس گھڑی لفظ مجسم بن جائیں
تشنگی اُن کی عیاں ہوتی ہے
یہی لفظ سوالوں کو جنم دیتے ہیں
خاموش سا کوئی مطلب دے کر
نئی سوچ عطا کرتے ہیں
ذہن پر جیسے اثر رکھتے ہیں
آج تک ہم نے نہیں جانا
آج تک ہم نے نہیں سوچا
لفظ ایسا بھی اثر رکھتے ہیں
لفظ جو احساسات سے ٹکراتے ہیں
حیرت زدہ کر جاتے ہیں
اور پھر ہمیشہ کی طرح
اک انجان سی خوشبو بن کر
یادوں میں بس جاتے ہیں
بیتے ہوئے موسم کی طرح
دل میں رہ جاتے ہیں دھڑکن کی طرح