لوٹ تو آؤ گے، لوٹاؤ گے دن رات کسے
Poet: تنہاؔ لائلپوری By: تنہاؔ لائلپوری, Faisalabadلوٹ تو آؤ گے، لوٹاؤ گے دن رات کسے
پھر میسر بھلا آئیں گے یہ لمحات کسے
خوب لگتا ہے ابھی دیس سے پردیس تمھیں
کام ہے خوب یہاں، آتے ہیں سندیس تمھیں
ایک دن دیکھنا پہنچے گی بہت ٹھیس تمھیں
فیصلہ کر جو چکے ہو تو اجازت کیسی
میں تمھیں روک لوں ایسی مری جرأت کیسی
جاؤ تم شاد رہو، سختئ فرقت کیسی
دل پہ رکھ لوں گی میں پتھر، نہ کروں گی ہائے
تا دمِ زیست، سراسر نہ کروں گی ہائے
وعدہ ہے تم سے، ذرا بھر نہ کروں گی ہائے
تم وہاں جاؤ گے، پردیس، سزا دو گے مجھے
ہو کے مجبور، وہاں جا کے دغا دو گے مجھے
مجھے معلوم ہے، چپکے سے بتا دو گے مجھے
چند دن بعد محبت مری بٹ جائے گی
گوری پہلو سے تمھارے جو لپٹ جائے گی
میری تقدیر نیا صفحہ الٹ جائے گی
تب مجھے یاد تمھاری ہی سہارا دے گی
میرے جذبات کی کشتی کو کنارا دے گی
قدرتِ حق مجھے بیٹا بڑا پیارا دے گی
ہونے لگ جائے گی کچھ مجھ کو توجہ حاصل
اور ہو جاؤں گی کچھ میں بھی زیادہ مائل
گوری کر دے گی تمھارے لیے پیدا مشکل
اچھے ہوں گے نہ تب اتنے بھی تمھارے حالات
اپنے بیٹے سے ملاقات کی تم کر سکو بات
جیل تک جانے کے دے گی تمھیں گوری خدشات
زندگی سے تمھیں ہونے لگے گی اکتاہٹ
ہو گی بد بخت، بد اخلاق وہ گوری منہ پھٹ
اور تمھاری ذرا تب جائے گی صحّت بھی گھٹ
دولت و زر تو بہت جمع کرو گے پردیس
زندگی نصف سے اوپر تو جیو گے پردیس
آنا بھی چاہو گے، مجبور رہو گے پردیس
کتنے احباب کو کاندھا بھی نہ دے پاؤ گے
رشتہ داروں کے جنازوں میں نہیں آؤ گے
کتنے ہی آخری دیداروں کو پچھتاؤ گے
دم بہ دم وقت گزرتا ہی چلا جائے گا
ایک لمحہ بھی فراغت کا نہیں آئے گا
ہجر دونوں کو ہمیں گُھن کی طرح کھائے گا
پھر اچانک سے عجب واقعہ ہو گا واقع
تمھیں معلوم نہ ہو گا کہ ہُوا کیا واقع
جو نہ واقع ہُوا وہ ہو گیا گویا واقع
جب کئی روز گزر جائیں گے خاموشی میں
تمھیں ہونے لگے گی فکر سی، بے فکری میں
چابیاں بھولنے لگ جاؤ گے تم جلدی میں
ایسی گھبراہٹیں پہلے نہ ہوئی ہوں گی کبھی
لاکھ رنجیدگیاں ہوتی رہی ہوں گی کبھی
تم نے باتیں یہ مگر یاد نہ کی ہوں گی کبھی
ذکر اک دوست سے کرتے ہوئے رو دو گے تم
دیس کی خامشی اشکوں میں سمو دو گے تم
میرے شکوے سبھی اک لمحے میں دھو دو گے تم
دوست جانے کا تمھیں دیس کہے گا اک بار
دیس آنا تو تمھیں تب بھی لگے گا دشوار
لیکن آخر کو تمھیں ہونا پڑے تیار
ہو گا احساس عجب، لوٹنا اک مدت بعد
ہاتھ خالی سے لگیں گے تمھیں تب دولت بعد
تمھیں فرصت ملے گی پر ملے گی مہلت بعد
دیکھتے بھاگ کے لگ جاؤ گے بیٹے کے گلے
بال، بازو بہت الجھاؤ گے بیٹے کے گلے
ہار سو بوسوں کے پہناؤ گے بیٹے کے گلے
ماں کہاں ہے تری، بیٹا! مجھے جلدی سے بتا
بولتے جاؤ گے تم، چُپ سا رہے گا بیٹا
تمھیں دیکھے گا، بہت زور سے پھر چیخے گا
اور بازو سے پکڑ کر تمھیں لے آئے گا
میرے کمرے میں پہنچتے ہی یوں چلّائے گا
ماں! یہاں دیکھیے، اور میز سے ٹکرائے گا
خالی کمرے میں مگر آہ! مگر ہو گا کون
ہائے! آنے کی تمھارے کرے گا پروا کون
کون تنہا رہا، رہ جائے گا پھر تنہاؔ کون
زندگی بھر کے سنا پاؤ گے حالات کسے
پھر میسر بھلا آئیں گے یہ لمحات کسے
لوٹ تو آؤ گے، لوٹاؤ گے دن رات کسے
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






