لوگ لکھتے رہے ظلمت کے فسانے کیا کیا
پھر گئے آنکھوں میں تاریک زمانے کیا کیا
آج جب از سر نو ہم نے سجائی محفل
یاد آئے ہمیں کچھ دوست پرانے کیا کیا
فکر اسباب و وسائل میں یہ انساں گم ہے
سوچتا رہتا ہے رہ وقت نہ جانے کیا کیا
اب اگر کوئی نہ سمجھا تو قصور اس کا ہے
میرے اشکوں نے کہے غم کے فسانے کیا کیا
اس دل توڑ دیا ، اس کا جگر چھید لیا
چشم بد دور، اڑاتے ہو نشانے کیا کیا
سوچ لیتی ہے محبت بھی ہزاروں رستے
ان سے ملنے کے نکلتے ہیں بہانے کیا کیا
کھل گئی ہم پہ بھی دنیا کی حقیقت آخر
ہم نے بھی دیکھ لئے خواب سہانے کیا کیا
وہ بتاکے بلاتے ہیں ، خدا خیر کرے
سامنے سب کے وہ کہہ جائیں نجانے کیا کیا
اک نیا سوز، نیا کیف ملا مجھ کو نصیر
ساز دل چھیڑ گیا آج ترانے کیا کیا