لڑکی
Poet: AF(Lucky) By: AF(Lucky), Saudi Arabiaکانٹوں کے ساتھ جیسے لگی
ہوئی ہیں اک گلاب لڑکی
تیرے اندر ہیں قید
بہت سے راز لڑکی
مگر پھر بھی ُتو
تو اک بند کتاب ہیں لڑکی
ُتو دیوار نہیں فقط
اک انیٹ ہیں لڑکی
تیری ُاڑان کیسی
تیرے خواب کیسے
ُتو تو ہے بس
حکم کی غلام لڑکی
اس دنیا میں یوں تو
تجھ جیسی کوئی
نہیں مثال لڑکی
مگر پھر بھی ُتو ہیں
بہت بے ُزبان لڑکی
تیری کیا بات کرنی
ُتو تو ہیں خود اک
خواہشیوں کی کھلی دکان لڑکی
ُتو اجڑے موسم میں
بھی ہے باغ لڑکی
مگر کبھی کبھی ُتو
بہاروں میں بھی ہیں
ٹوٹی ہوئی شاخ لڑکی
تیری تو ُمیدیں ہیں
وابستہ تیری ہی جان سے لڑکی
ُتو کچھ نہیں مانگتی
فقط سچے پیار کے لڑکی
مگر بتا تجھے کیا دیا ہیں
اس معاشرے نے سچے
پیار کے انجام میں لڑکی
تیرے ہی ڈھروں خواب
جلا کر راکھ کیے ہیں
اس معاشرے نے لڑکی
ُتو کچھ بھی کر لیں مگر
تیری ہی خوبصورتی
کبھی کبھی بن جاتی ہیں
تیرے اپنے لیے عذاب لڑکی
اب کہا لوگ سچی محبت کرتے ہیں
ُتو تو جان کر بھی انجان ہیں لڑکی
یہ وعدے یہ قسمیں تو صرف
دل بہلانے کی باتیں ہیں مگر
اب کون کرتا ہیں انہیں وفا لڑکی
اک تیرا ہی دل ہیں جہاں کوئی
پیار سے قید ہو جائیں تو
پھر کہا آزاد ہوتا ہیں لڑکی
مگر یہ زمانہ تو تجھے
صرف الزاموں میں
قید کرنا چاہتا ہیں لڑکی
کیوں ہر کوئی تجھے شک
کی نگاہ سے دیکھتا ہیں
کیا ُتو اتنی ہی ُبری ہیں لڑکی
تیرے تو ارمان جیسے کوئی
معنی ہی نہیں رکھتے
تبی تو ُتو زندہ چنوائی گئی
اک دیوار میں لڑکی
کبھی تجھے عزت کے
نام پر قتل کیا گیا ہے لڑکی
اور کھبی تجھے گھر سے
نکال کر بےگھر کیا گیا ہیں لڑکی
آخر یہ زمانہ کیوں تجھ پے
اتنے زلم کرتا ہیں لڑکی
کیا تیرا اس دنیا میں لڑکی ہونا
ہی تیرے لیے عذاب ہے لڑکی
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں







